سجدہ سہو کا مسنون طریقہ
سجدہ سہو وہ حالت ہے جو نماز یا قرآن کی تلاوت میں کسی غلطی یا شبہات کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر نماز یا قرآن کی تلاوت کے دوران قیام یا سجدہ میں غلطی ہوجائے تو دو اضافی سجدے کرکے اس غلطی کو درست کیا جاتا ہے۔ اگر قرآن کی تلاوت کے دوران کسی آیت میں سجدہ واجب ہو اور اس میں غلطی ہو، تو بھی سجدہ سہو کرنا چاہئے۔ یہ عمل نماز کی صورت میں وقوع پذیر ہو تو نماز کا حصہ بنتا ہے اور اگر قرآن کی تلاوت کی جا رہی ہو تو تلاوت کا حصہ بنتا ہے۔ مختلف فقہی مذاہب میں اس عمل کے احکام مختلف ہوتے ہیں، لہٰذا صحیح ہدایت کے لئے اپنے مذہبی علماء یا مفتی سے رابطہ کرنا مفید ہوتا ہے۔
سجدہ سہوکے قسمیں
نماز میں سجدہ سہو
اگر نماز کے دوران قیام یا رکوع یا سجدہ وغیرہ کے دوران غلطی ہوجائے، تو شخص دو اضافی سجدے کرتا ہے اور پھر نماز جاری رہتی ہے۔
تلاوت قرآن میں سجدہ سہو
اگر قرآن کی تلاوت کے دوران غلطی ہو یا شبہات پیدا ہوں، تو اضافی سجدے کر کے غلطی کو درست کیا جاتا ہے۔
سجدہ تلاوت
اگر قرآن کی تلاوت میں کسی آیت میں سجدہ واجب ہو اور اس میں غلطی ہو، تو اس غلطی کی اصلاح کے لئے دو اضافی سجدے کئے جاتے ہیں۔
نماز میں سجدہ سہو کا طریقہ
سلام سے پہلے سجدہ سہو کرنا ہو تو التحیات، درود اور درود کے بعد کی دعا سے فارغ ہو کر دو سجدہ کریں اور بلا کچھ پڑھے فوراً سلام پھیر دیں، اور سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا ہو تو صرف دو سجدہ کر کے سلام پھیر دیں پہلے اور بعد میں کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
غلطی ہونے کی صورت میں: اگر نماز کے دوران قعدہ سے قیام یا دوسری رکعت کے قعدہ میں قیام میں غلطی ہو جائے، تو شخص کو سجدہ سہو کرنا چاہئے۔
تشہد کے بعد: نماز کی تشہد کے بعد، شخص کو “تسلیم” کے بعد “السلام علیکم ورحمت اللہ” کہتے ہوئے دائیں طرف موڑ کر، “أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الْعَظِیْمَ وَ اتُوْبُ اِلَیْہِ” یعنی “استغفراللہ العظیم اور توبہ کرتا ہوں” کہنا چاہئے۔
سجدہ سہو: یہاں پر شخص کو دو بار “سبحان ربی الأعلى” یا “سبحان ربی الأعلی و بہمدہ” یا کوئی دوسرا تسبیح کہنا ہوتا ہے۔
سجدہ کرنا: دو مرتبہ سجدہ کرنا ہوتا ہے، پہلی بار قدموں کے ساتھ اور دوسری بار ہاتھوں کے ساتھ۔
تسلیم: سجدہ سہو کے بعد، شخص کو دوبارہ “تسلیم” کہتے ہوئے نماز مکمل کرنی چاہئے۔
یہ طریقہ عموماً مختلف فقہی مذاہب میں مشابہت رکھتا ہے، لیکن مختلف مذاہب کے فقہا کے مطابق تفصیلات مختلف ہو سکتی ہیں، لہٰذا اپنی مذہبی معلومات یا مقامی مفتی سے مشورہ لینا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔